حلقہ احباب اشرفیہ کے لیے یہ خبر انتہائی روح پرور رہی کہ حضور اشرف ملت کئی سالوں کے انتظار کے بعد،امریکاکے دورے پر تشریف لے گئے ہیں،14/جولائی کو اندرا گاندھی انٹر نیشنل ایرپورٹ نئی دہلی سے نیو یارک پہونچے تھے۔وہاں پر احباب حلقہ اشرفیہ اور دیگر محبین ومخلصین نے آپ کا پر تپاک استقبال کیا تھا۔کئی دنوں تک نیو یارک میں رہ کر مختلف ملی وسماجی اور روحانی وتربیتی پروگرامس میں حصہ لیتے رہے، احباب کی درخواست پر شادی کی تقریبات میں شرکت ہوئی جہاں،مختلف الخیال لوگوں سے گفتگو کرنے اور ایک دوسرے کوسمجھنے کاموقع ملا۔
حضور اشرف ملت مجلسی گفتگو کے باد شاہ ہیں،اگر کوئی شخص چند منٹ بھی آپ کی مجلسی گفتگو کوسن لے تو پھر مجلس سے اٹھنے کانام نہیں لیتا۔اور آ پ کاہمیشہ کے لیے گرویدہ ہوجاتاہے۔نیو یارک سے ہاسٹن میں تشریف لے گئے،وہاں پر بھی مسلم امریکن کمیونیٹی کے ذمہ داران،اورسماجی وملی افراد خصوصااشرفی برادران نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔چند دنوں تک یہاں بھی قیام رہااس دوران محرم ا لحرام کی مناسبت سے مختلف مقامات پرخطاب ہوا،خصوصا نوری مسجد(Salfish Point Suger Land Houston) کا خطاب یادگاری خطاب رہا۔جس میں آپ نے تفصیل سے اہل بیت رسالت کی عظمت وفضیلت اورحضرات صحابہئ کرام کی عزت وکرامت کو بیان فرمایاجسے سن کر حاضرین باغ باغ ہوگئے۔آپ نے کہا کہ صحابہ کرام کی جامعت ایسی جماعت ہے جس سے اللہ راضی ہوچکا،اور وہ اللہ سے راضی برضادنیا سے گئے۔
آپ نے قرآپاک کی مشہور آیت کریمہ قل لااسئلکم علیہ اجرا کو اپنا موضوع خطاب بنایااور محققانہ انداز میں فرمایاکہ مودت کا معنی غیر مشروط محبت ہے،یہ صرف عام محبت نہیں،عام محبت تو سب کے ساتھ کرنا ضروری ہے، تو پھر اہل بیت اور عام مسلمانوں کی محبت میں کیا فرق ہے؟وہ فرق یہ ہے کہ سب سے محبت اختیاری ہے اور اہل بیت سے محبت سے اضطراری ہے،ہمیں اختیار ہی نہیں ہے کہ ہم ان سے محبت نہ کریں۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ نازل ہوا۔ ترجمہ: کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ(اُجرت) نہیں مانگتا سوائے میرے قرابت داروں کی محبت کے۔(سورہ ئ شوریٰ) آیت مودّت میں رسول اللہ کے اقربا کی محبت اجرِ رسالت قرار دی گئی ہے۔ اس آیت میں ”قُرْبیٰ“سے مراد وہی افراد ہیں جن کی شان میں آیتِ تطہیر نازل ہوئی ہے۔
انھوں نے امام رازی کی مشہور روایت کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص اگر مقام ابراہیم اور کعبہ کے درمیان طواف کرتا ہواور اس کے دل میں بغض آل محمد ہو تو کافر ہی مرے گا۔اس کاطواف وزیارت کام نہیں آئے گا،اس لیے آج ضرورت ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں میں حضرات اہل بیت رسالت کی محبت وعظمت کوٹ کوٹ کر بھری جائے،اور ان کاذہنی وروحانی رشتہ نبی کے گھر والوں سے مضبوط کیاجائے۔جب محبت اہل بیت کامل ہوجائے گی تو ہمارا ایمان بھی محفوظ ومامون ہوجائے گا،کیونکہ یہ محبت در اصل ایمان کا انکم ٹیکس ہے۔اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد مال ومتاع ضبط ہونے سے محفوظ ہو جاتاہے۔
مولانا کچھوچھوی نے کہا کہ ماہ محرم الحرام میں کربلا کا تذکرہ صرف رونے اور رلانے یا زیب داستان کے لیے نہیں ہے،بلکہ پیغام حق وصداقت کو عام کرنے کے لیے ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کے عظیم لیڈر مہاتما گاندھی نے حضرت امام عالی مقام کے پیغام کی عظمت کو بہت پہلے محسوس کیا تھااورکہا تھاکہ اگر مظلومیت کے ساتھ کسی نے انصاف کے پرچم کوبلند کیا ہے تو وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات ہے۔کربلاکا پیغام صبر وشکر کاپیغام ہے،دین کی بقا کے لیے ہرطرح کی قربانی پیش کرنے کاپیغام ہے۔اوریہی پیغام لے کرمیں ہندوستان سے امریکا میں آیا ہوں کہ آج دنیا میں ہر طرف امت مسلمہ کے خلاف ناخوش گوار آندھیاں چل رہی ہیں اس کا مقابلہ ہمیں امام علی مقام کے دیے ہوئے ہتھیار سے کرناہے۔