Urdu News

مدرسہ فیضانِ حزب اللہ شاہ: آباد رہے ساقی یہ جلوۂ مے خانہ

مدرسہ فیضانِ حزب اللہ شاہ

شاہ خالد مصباحی

 سدھارتھ نگر

صوبۂ راجستھان کا نام ذہن و دماغ میں جب بھی آتا ہے، تو اس سرزمین پر آباد  ریتیلے ٹیلے ، پہاڑ ، صحرا، بلبلہ چشمے، دن میں سورج کی تپش، ریت کی چمک،  اور رات کا سہانہ موسم، ہواؤں میں پھونٹی بھینی خوشبو، بر خلاف دن کے رات کی مہمان نوازی مثل عروساں،کیا کہنا کہ انسان دن کی کلفتوں کو بھول کر رات کے خوب صورت لمحوں میں مگن ہوجاتا ہے ۔ یہ اس زمین کی خصوصیت ہے کہ شام‌کے لمحوں میں ہر پریشان حال شخص فرحت محسوس کرتا ہے، اور ریت کے ذرے انسانوں کے خادم بن کر، اس کی تھکاوٹ اور دن کی بے بصیرتی کو دور کر دیتے ہیں۔

یہ سچ کہا ہے بزرگوں نے کہ انسان کی ذاتیات پر ماحول ، حالات اور موسم کے مزاج کی سرگرمیاں کافی حد تک اثر پزیر ہوتی ہیں۔ جس کی واضح مثال  یہ خوب صورت آئینہ دار معاملہ آیندہ ہے، جس کو اپنے لفظوں میں پیرونے کی جسارت پیدا کر رہاہوں۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

سترہ جولائی کو صوبہ راجستھان، جیسلمیر ، قصبہ لاٹھی میں واقع مدرسہ فیضانِ حزب اللہ شاہ میں چند دنوں کے لیے ایک عارضی استاد کی حیثیت سے جانا ہوا۔ عارضی چیز میں حتمی شکل کی بقا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس عارضی شئ سے اس کے تا دیر بقا کی امید لگائی جا سکتی ہے۔ لیکن جب دماغ و دل سے محو ہوکر فدا کاریوں کا والہانہ انداز میں آپ کا استقبال ہونے لگے، وہ آپ کو اپنے اپنے میں، سمو دیں، جہاں سے تفریق مکمل طور سے ختم کردی جائے، آپ کی فکر و نظر میں منضبط ڈیٹا سے آپ کے اردگرد میں بسے لوگ مشابہت رکھتے ہوں، وہاں کی زبان و ادب ، لوگوں کا رہنا سہنا ، زیبا و دیدنی پوشاک ، ماکولات و مشروبات، آپ کی ذہنی ترجیحات کے مطابق ہو تو انسان ایسی جگہ پر پہونچ کر اپنا گزشتہ سب کچھ چھوڑ کر وہیں پر مکین ہو جانے کے لیے خود کو راضی کرنے لگتا ہے۔۔۔

کچھ ایسی ہی تصویر میرے یار دل کی ہے!

لیکن زمانہ کی ستم ظریفی دیکھی نا گئی

آج راجستھان سے دہلی کی طرف لوٹ رہا ہوں خود کو اس بات کا باور کرانے میں نام کام ثابت ہورہا ہوں کہ ابھی چند دن پہلے ہی تو وہاں گیا تھا ، کچھ لمحوں کا مقیم تھا، مسافر ہونا طے شدہ تھا، اور ویسے بھی سفر انسانی فطرت کا لا ینفک جزو ہے ۔

لیکن نہیں ہر چیز اپنے پیمانہ متعینہ سے بر خلاف جارہی ہے جس کا میں عادی نہیں، اور ہر چیز اپنی روایت زندگانی سے بالاتر، جس کی یہ واضح دلیل ہے کہ مدرسہ محولہ کے اساتذہ و طلبا اور آبادی کے لوگوں کا کلچر، ادب شناس ، غیور عوام نے میری طبیعت و مزاج کو بے انتہا موہ لیا کہ جیسے صدیوں سے میں یہاں مقیم رہا ہوں، اور اجڑتے گھر کی طرح میرا دل ہر ایک لمحہ کو یاد کرتے ہوئے اجڑ رہا ہے۔ جسمانی طور پر اس جگہ اور وہاں کے مقربین و محبوبین لوگوں سے تو رخصت ہوگیا لیکن وداعِ ہوش و حواس کہنا میرے لیے بڑی مشکلات قائم کر رہی ہیں۔

لائق صد احترام مدرسہ محولہ کے اساتذہ کرام، یعنی  علامہ و فہامہ حضرت مولانا ابراہیم جامعی صاحب قبلہ ، حضرت حافظ و قاری مشفق و محترم مولانا کبیر احمد اسحاقی (پرنسپل ادارہ ہذا)، ادب نواز شخصیت حضرت مولانا روشن علی اسحاقی سعدی، اور عمدہ مشاق حافظ و قاری اظہر الدین صاحبان، اللہ تعالیٰ ان صاحبوں کو عمر دراز عطا فرمائے اور اس ریگستانی سرزمین پر ان بزرگوں اور علم برداران اسلام کے سایہ تلے جو دین و سنیت کا گل کھل رہا ہے، وہ اپنے آپ میں جماعتی سطح پر ایک بہت بڑے کارنامہ کی حیثیت رکھتا ہے، دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس چمن کو مزید شادابی عطا فرمائے، یہ کرشماتی شخصیتوں کا کردار ہی اس قدر انوکھا ہے کہ ہر آنے والے فرد کو اپنا بنا لیتے ہیں ۔

دینی خدمات ، تعلیمی نظم و نسق و حالاتِ اطراف

محولہ بالا مدرسہ ان حضرات کے سایۂ دیوار جانفشانی کے تلے چل رہا ہے، پوکھرا تحصیل سے جنوبی سمت کی طرف جماعتی سطح پر ہمارےافراد بصورتِ عالم ، حافظ ، قاری و مبلغ وغیرہ کا کم یاب ہونا، ایک شدید تکلیف کا باعث ہے ۔ وہیں اس کے مد مقابل پوکھران شہر اور شمالی علاقوں میں مد مقابل فرقوں کے علما کی کثرت، کافی تکلیف کا باعث اور ہم سبھی کے لیے شرم ناک ہے۔ایسی صورت حال میں ان افراد اور ادارہ محولہ کے ذریعہ جانثاران اہل اسلام تیار کیے جاتے ہیں اور بحسن وخوبی دعوت دینے کے طرائق ، اسلامی افکار و نظریات کے مطابق رہنے ، سہنے کی ان‌کو مکمل تربیت بھی کی جاتی ہے۔ اور ’’مرضی مولی از ہمہ اولی و فیصلۂ او بہتر از فیصلۂ ہزارہاں‘‘ کہ جس سے چاہے اپنے دین کے لیے بہترین خدمت و کام لے، اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور قریب ترین لوگ ہیں، جو اپنی زندگی اسلام کی حفاظت کرنے کے طریقوں اور عمدہ وساطتوں کے بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

 لوگ دیار ہند کے بہترین شہری علاقوں میں رہ کر آج اس قدر دینی قلعہ قائم کرنے سے قاصر ہیں جہاں تعلیم کے بہترین انتظام کے ساتھ بہترین تربیت کا انتظام ہو۔۔مدرسہ محولہ میں زیر تعلیم مقیم طلبا کی تعداد تقریباً ایک سو سے زائد ہے، جن کے کھانے ، پینے ، علاج و معالجہ ، رہنے سہنے کا انتظام اراکینِ ادارہ خود بخود کرتے ہیں، اور یہ مشاہدات کی بناء پر لکھ رہاہوں نہ کہ اسے افسانوی ادب کا حصہ بنانے کی کوشش، اس کا حرف بہ حرف حقیقت سے لبریز ہے جو ایک محرر کے روایتی طور لکھنے کے عادی ہونے کے زمرات سے خالی ہے ۔ اس ادارہ میں ناظرۂ قرآن کریم ، حفظ و قراءت کی تعلیم کے ساتھ، درس نظامی میں جماعت خامسہ تک کی مکمل تعلیم یعنی نحو، صرف عربی ادب، فارسی ادب ، ترجمہ و تفسیرقرآن ۔،حدیث، فقہ ، بلاغت، منطق، فلسفہ، اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ، علم الفرائض، تفسیر ، وغیرہ علوم سے مکمل آگاہی، محولہ بالا باوقار و باصلاحیت علمائے کرام کے زیر نگرانی دی جاتی ہے پھر مولوی ، حفظ و قرأت کی دستار سے طلبا کو نواز کر صوبۂ راجستھان کی ایک مرکزی حیثیت کی حامل درس گاہ ، دارالعلوم اسحاقیہ جودھ پور و دیگر مدراس اہل سنت میں آگے کی تعلیم کے حصول کے لیے طلبا کو داخلہ دلوایا جاتا ہے۔

 یہ ادارہ  پانچ خوب صورت ، دیدہ زیب ، قیمتی پتھروں سے نقش شدہ تعلیمی و رہائشی عمارتوں پر مشتمل ہے، بچوں کے پانی پینے کے لیے ادارہ کے احاطہ میں فریزر مشین نصب کردہ ہے تاکہ وہاں سے صاف ستھرے پانی بآسانی حاصل کیا جا سکے ۔ پیشاب و پاخانہ، غسل خانوں کا انتظام رہائشی عمارتوں سے الگ، عمارتیں بنائی گئی ہیں الغرض تمام جدید سہولیات اور شایقین حصولِ علوم نبویہ کے لیے مکمل بند و بست ہے، اور اس کے علاوہ شاہ صبغت اللہ علیہ الرحمہ کے بنام ڈیننگ مختلف کمرہ پر مشتمل ایک  عمارت قائم ہے ، جہاں مقیم بچوں اور اساتذۂ ادارہ کا کھانا بنایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ مدرسے کے احاطے میں خالص پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کے لیے ایک خوب صورت مسجد بر طرز قدیم بنائی گئی ہے جس کو دیکھ کر، بزرگوں کی قیام گاہیں، عبادت گاہیں یاد آتی ہیں،اور ادارہ سے چند قدموں کے فاصلے پر تقریباً دو تین بگھے زمین پر  ایک خوبصورت جمعہ مسجد تعمیر شدہ ہے، جو طرز تعمیر نو کا عظیم شاہکار ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

در حقیقت یہاں کے لوگوں پر اسلام کا اثر و رسوخ ، ایک صد ق دل ، ولی اللہ کے کرم کی نذر ہے اور یہاں کے باشندگان کو خاصی طور پر ان کی روحانیت حاصل ہے ۔ اور جیسا کہ اس پورا خطے کے لوگ پاکستان باشی، خطۂ پنجاب و سندھ میں ایک مشہور و معروف ولی اللہ گزرے  ، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک، نام نامی اولاد رسول سید حزب اللہ شاہ راشدی ’’المعروف تخت دھنی تخت والے‘‘ جو آج سے تقریباً سالوں قبل اس خطے میں حضرت علیہ الرحمہ کا آنا جانا ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو سحر آگہی حاصل ہوئی اور پوری آبادی کے لوگ انہی سے دین و سنیت کا علم سیکھے، اور انہیں سے مکمل طور پر وابستہ ہوگئے، اور آج اس علاقے میں قائم سنیت آپ کی بہترین خدمتوں میں سے ایک  ہے۔ اور یہ فیضانِ حزب اللہ شاہ اور آپ کا اس جہالت بھری وادی پر قدم رنجہ فرمانے کا دین و سنیت کی خدمت تئیں ایک بہترین ثمرہ ہے ۔

کلماتِ تعارفانہ، حضرت حزب اللہ شاہ

آپ دین و سنیت کے ایک عظیم صوفی منش درویش، کلماتِ خداوند متعال کے ایک بہترین عالم ہونے کے ساتھ ایک بہترین داعی بھی تھے ، آپ نے ہند و پاک کے نواحی ممالک کا بغرض تبلیغ و اشاعت دین اسلام خوب سفر فرمایا۔ موجودہ پاکستان سمیت ہند و ایران کے سرحدی سندھی علاقوں کا خصوصی طور پر آپ نے اپنے اسفار میں شامل فرمایا جس کے نتیجے میں کثیر تعداد میں لوگ آپ کے ذریعہ دین اسلام سے وابستہ ہوئے اور اس وقت بھی ہند و پاک سمیت سندھ کی مکمل آبادی  آپ کی خدمات کی معترف ہے ، اور یہاں کے لوگ مکمل طور سے آپ کی ذات مبارک سے وابستہ ہیں ۔ اور ہر پنج وقتہ نمازوں کے بعد، دو دعاؤں، ازکار و تسبیحات پر مشتمل کرنے کی ایک اچھی روایت ان خطوں میں قائم ہے جو آپ کی بہترین تربیت کرنے کی ایک یادگار عمل ہے۔ بتانے کے مطابق، آپ نے دعوت و تبلیغ کے کثیر اسفار کے ساتھ مختلف کتابوں کو بھی تصنیف و ترتیب دیں، اور شاعری میں بھی  اچھی خاصی طبع آزمائی کی اور اپناتخلص مسکیؔن رکھا۔ حالات کی نزاکت نے کچھ ورق کتب کو برباد کرڈالا، لیکن مکمل وراثت اور ہدایت کار کی صورت میں حضرت الشاہ  علیہ الرحمہ کی ایک خوب صورت فارسی شاعری کا مجموعہ ’’دیوان مسکین‘‘ جو آج بھی ہمارے بیچ میں موجود ہے اور فارسی ادبیات کے شاہکاروں میں ایک انوکھی کتاب اور اعلی خدمات شمار کی جاتی ہے، اور ان کے ادبی و قلمی خدمات پر یہ دیوان شاہد ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

روحانیت کے اس سوداگر، علم و عرفان کے اس عظیم محافظ ، داعی کبیر کا مرقد مبارک و آستانہ پر فیض پاکستان کے کراچی پیر پگاڑہ میں آج بھی واقع ہے، جو شب و روز مرجع خلائق عوام و خواص ہے ۔

آزادیِ سندھ کی خاطر ایک اعلی کار محاز گر

بی بی سی اردو خبر کے مطابق، انگریز سرکار کے خلاف لڑنے والی حُر جماعت کے سابقہ سربراہ اور موجودہ پیر پگاڑہ کے والد پیر صبغت اللہ شاہ کو انگریز سرکار نے مارچ انیس سو تینتالیس میں پھانسی پر چڑھانے کے بعد ان کی لاش اسامہ بن لادن کی طرح غائب کر دی تھی۔ جس کی اُس وقت یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ اگر ان کی قبر بنائی گئی تو وہ ان کے مریدوں کی طاقت کا سرچشمہ بن جائے گی۔ اور آج ایسا ہی ہوا کہ حضرت کے خانوادہ سے منسلک افراد کی تعداد لاکھوں کی پہونچتی ہے ۔ اور ملک پاکستان کی ایک مرکزی خانوادہ بنام خانوادہ رشیدیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

انگریز سرکار پیر صبغت اللہ شاہ کی موت کے بعد ان کے دو معصوم صاحبزادوں بشمول موجودہ پیر پگاڑہ کو لندن لے گئے اور انہیں ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستان پہنچایا اور انیس سو باون میں سید علی مردان شاہ کو پیر پگاڑہ بنایا۔

صبغت اللہ شاہ نے جب انگریز کے خلاف’حُر تحریک‘ شروع کی تو وہ سندھ کے پاکستان میں شمولیت کے مخالف تھے اور انہوں نے جی ایم سید کو پیغام بھیجا کہ سندھ کی آزادی کی حمایت کریں۔ لیکن جی ایم سید نے ان کی بات نہیں مانی اور پاکستان بنانے میں پیش پیش رہے۔ مگر بعد میں جب جی ایم سید نے سندھ کی آزادی کا نعرہ لگایا اور موجودہ پیر پگاڑہ سے سیاسی تعاون کی بات کی تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

ہند و پاک ممالک سے جڑی اس خاندان کی سیاسی ، سماجی ، دینی ، و مذہبی خدمات کی کچھ جھلکیوں پر مشتمل یہ تحریر ہے، فی الحال مدرسہ فیضانِ حزب اللہ شاہ، یہ ہندوستان سرزمین پر آباد سندھ علاقہ مغربی راجھستان،جیسلمیر ضلع قصبہ لاٹھی میں واقع ہے۔

وہاں کے لوگوں کی یہ ایک عظیم دینی و علمی قلعہ و تربیت گاہ ہے اور اس خاندان کا علمی سرمایہ بشکل وراثت ہے۔ جو عرصہ دراز سے صوبہ راجستھان کے مغربی خطوں میں مقیم باشندگان، ملت اسلامیہ کے نونہالوں ،بچوں ، بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کوشاں ہے ۔ جس کی حفاظت و سرپرستی فی الوقت با قدر علما کرام کی ایک محنت کش جماعت کر رہی ہے اور امید ہے کہ اسی لگن کے ساتھ تا عمر کرتے رہیں گے ۔ از تہ دل ادارہ ہذا کی ترقی و عوام‌کی خوش حالی و ادارہ ہذا کے جملہ اساتذہ و طلبا کے لیے بیش قیمت دعائیں اور نیک خواہشات پیش ہیں کہ،

آباد رہے ساقی یہ جلوۂ مے خانہ

Recommended