Urdu News

پروفیسرفاروق احمدصدیقی :شخصیت و ادبی خدمات

امام الدین امامؔ

امام الدین امامؔ

ریسرچ اسکالر،شعبۂ اُردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی

پروفیسرفاروق احمدصدیقی کانام اُردودنیامیں کئی حوالوں سے اہمیت کاحامل ہے۔آپ بیک وقت بہترین استاد، معروف ناقدومحقق، استاد شاعر وغیرہ کی حیثیت سے ادبی دنیامیں نیک نام ہیں۔آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ جو ملک ہندوستان کی مختلف جامعات اوردیگرادبی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ساتھ ہی بہت سے شاگرد بیرون ممالک میں بھی اپنی علمیت کاجوہردکھلانے میں مشغول ہیں۔پہلے میں پروفیسرموصوف کامختصرسوانحی خاکہ پیش کردوں اس کے بعد ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

آپ کانام:ڈاکٹرفاروق احمدصدیقی،ولدیت:مولوی محمد سلیم الحامدی مرحوم،تاریخ ولادت:۳۱؍جولائی ۱۹۴۷؁ء(بہ اعتبارسند)، مولدومسکن:موضع:پوکھریرا،وایا رائے پور، ضلع سیتامڑھی(قدیم مظفرپور)بہارہے،یہ بستی عہدقدیم سے اپنی ایک منفرد علمی و ادبی شناخت رکھتی ہے۔ آپ کی موجودہ رہائش:محلہ امرودبگان،جیل چوک ،چندوارہ،مظفرپور(بہار) 842001ہے،آپ کی تعلیمی لیاقت:(الف)عالم۔بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈپٹنہ سے ۱۹۶۴میں(ب)ایم۔اے۔ (اردو) ۱۹۶۸(ج) ایم۔اے۔(فارسی)۱۹۶۹(د)پی ایچ۔ڈی (اُردو) ۱۹۷۷ آپ کی Ph.D.کاموضوع ’’ریاض حسن خاں :حیات اور کارنامے‘‘تھا۔آپ تقریباًایک درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن کے نام اس طرح ہیں:(۱)مقدمہ دیوان ریاض (تحقیقی مقالہ(۲)افہام و تفہیم(تنقیدی مضامین کامجموعہ)(۳)تفہیم و تجزیہ(تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ)، (۴)ڈاکٹرمغفوراحمد اعجازی(مونوگراف)(۵)اَزہا رمدینہ(نعتیہ کلام کا مجموعہ) (۶)مقالات فاروقی(علمی ادبی و مذہبی مضامین کا مجموعہ)(۷)چمنستان نعت(بیسویں صدی کے معروف نعت گویوں کاتعارف مع کلام ) (۸)احساس و اِدراک(ادبی و تنقیدی مضامین کامجموعہ)، (۹)عرفان و آگہی(تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ) (۱۰)کربِ آگہی(غزلوں کا مجموعہ)آپ کاپہلا مطبوعہ مضمون’’امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری پر اِک نظر‘‘ہے جوماہنامہ ’’المیزان‘‘احمد رضا نمبر،بمبئی،سالِ اشاعت ۱۹۷۵میں شامل ہے۔موجودہ مشاغل:تعلیم و تدریس،شاعری اور تحقیق و تنقیدنگاری ہے ۔آپ بہاریونیورسٹی ،مظفرمیں صدرشعبۂ، اُردواورڈین فیکلٹی آف ہیومینیٹیزبھی رہے ہیں ۔ آپ ۲۰۰۹میں اپنے عہدے سے سکبدوش ہوچکے ہیں مگرقلم وقرطاس سے اپنے رشتے کواستواررکھتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی زندگی بسرکر رہے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

آپ مذہب اسلام کے سچے شیدائی ہیں اورآپ اپنی زندگی فرمان مصطفی (ﷺ) کے طریقے پر گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ کا مسلک خانقاہی ہے مگردوسرے مکتب فکرکے علمااوردانشوروں کامطالعہ بھی خوب کرتے ہیں ،آپ چونکہ ایک پروفیسر بھی ہیں اور عالم دین بھی اس لئے دونوں نظریے سے کسی بھی چیز کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،مذہب کے معاملے میں تنگ نظر ی آپ کوچھوکر بھی نہیں گئی ہے۔کسی سے اگر اختلاف ہوتوبھی اپنی تحریروں میںغیر معمولی سنجیدگی اور متانت سے کام لیتے ہیں۔جس کی بہت ساری مثالیں ان کی کتب کو پڑھنے کے بعد فراہم کی جاسکتی ہیں۔’’ازہارمدینہ‘‘کی نعت اور منقبت سے بھی آپ کے مسلک اور نظریے کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔آپ بغیر کسی لاگ لپیٹ اور بناکسی مصلحت کے اپنی بات دوٹوک انداز میں میں کہنے کے عادی ہیں۔جس کااندازہ ان کی تحریروں سے ہوگا۔

آپ کی پہلی تحقیقی کتاب’’دیوان ریاض حسن خاں خیالؔ معہ مقدمہ‘‘ہے۔یہ کتاب پروفیسر موصوف کاتحقیقی مقالہ ہے جس پر بہار یونیورسٹی،مظفرپورنے آپ کو پی ایچ۔ڈی۔کی سند تفویض کی ہے۔ان کے ممتحن پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر شکیل الرحمٰن تھے۔ریاض حسن خاں خیالؔ بہارمیں اُردوشاعری کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم شاعرگزرے ہیں جن کا ذکر قاضی عبدالودودنے’’معیار‘‘مارچ ۱۹۳۶کے شمارے میں بھی طورپربطورحوالہ پر کیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں ایک بہت ہی پُرمغز اور مبسوط مقدمہ ہے۔جس کے مطالعہ سے ریاض حسن خاں خیالؔکی حیات کے کئی گمشدہ گوشوں پر مکمل روشنی پڑتی ہے۔

 یہ آپ کی پہلی اورآخری کتاب ہے جس میں آپ نے کسی شاعرکے دیوان کو ترتیب دیا ہے۔آپ عربی،فارسی ،اُردواور انگریزی زبانوں سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔اُردوکے کسی بھی شاعر کے دیوان کوترتیب دینے کے لئے لازمی طورپر فارسی زبان و ادب سے واقفیت ہونی چاہئے آپ باضابطہ طور پر ایم۔اے۔فارسی  ہیں ،اس لیے ترتیب اور متنی تنقید کے تمام رموز نکات کو سامنے رکھتے ہوئے اس دیوان کومرتب کیا ہے جو کہ خیالؔشناسی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

آپ کی دوسری کتاب’’ افہام و تفہیم‘‘ ہے جو  ۲۰۰۵ میں زیورطبع سے آراستہ ہوئی۔ یہ کتاب آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر۱۲؍مضامین شامل ہیں۔جن کی تفصیل یہ ہے:’’اردوکی ادبی تحقیق میں فارسی کی اہمیت،غالبؔکے ایک مربی مولانا فضل حق خیرآبادی، اقبال۔شاعریامفکر،حضرت رضابریلوی کی نعتیہ شاعری پر اک نظر،ریاض حسن خاں خیالؔشخصیت اور شاعری،جمیل مظہری کی نظموں میں فکری عناصر،عنوان چشتی ایک کلاسیکی نقاد،جمالیات رومیؔکی روحانی فضااورپروفیسر شکیل الرحمٰن،اقبال انصاری کی کتاب عورت ایک سرسری جائزہ،حضرت شبنم کمالی ایک تعارف ، ڈاکٹرطلحہ رضوی برقؔایک رباعی نگار کی حیثیت سے‘‘اورآخری مضمون ہے’’ش۔م۔عارف مارہروی مارہ ماسہ نگاری‘‘ان تمام مضامین میں خاصاتنوع اور بوقلمونی ہے۔آپ کی تنقید سخت گیر نہیں ہوتی لیکن آپ اپنی بات کہنے میں کسی مصلحت سے کام لینے کے بھی قائل نہیں ہیں، اپنی بات کوادب اور ادبیت کے پیرائے میں بالکل دوٹوک کہہ جاتے ہیں۔جیساکہ میں نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ اُردوکے کسی دیوان کے مرتب کے لئے فارسی زبان وادب سے گہری واقفیت لازمی ہے۔جس کا ذکر کئی مشاہیر نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔جن میں گیان چند جین،خلیق انجم،رشید حسن خاں وغیرہ جیسے اہم نام شامل ہیں۔اس حوالے سے پروفیسر فاروق احمد صدیقی بھی لکھتے ہیں کہ

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

’’حق یہ ہے کہ اُردومیں تحقیق کا حق اداہوہی نہیں سکتا، اگر محقق فارسی سے نابلدہے۔کئی جہتوں سے اُردوفارسی کی رہین منّت رہی ہے۔‘‘

(افہام و تفہیم،طباعت:انڈین آرٹس آفسیٹ،قاضی پور پٹنہ،۲۰۰۵ص۔۱۴ )

آپ کی تیسری کتاب کا نام ’’تفہیم و تجزیہ ‘‘ہے۔اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں ۲۸؍اوردوسرے ایڈیشن میں ۲۳؍مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب کی غیر معمولی مقبولیت کے پیش نظر اب تک دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دوسرے ایڈیشن میںپہلے میں شامل مضامین میں سے کچھ کو حذف کیا گیا اور ان کی جگہ پر چندنئے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔اس کتاب کے تمام مضامین تنقیدی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔تمام مضامین کی فہرست پیش کرنا طوالت کاسبب ہوگا۔اس لئے اس سے صرف نظرکرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ  اِنہوں نے اس کتاب میں پروفیسر شارب ردولوی اور معرکۂ بالاکوٹ کے حوالے سے اپنی بات بہت ہی مدلل انداز میں کہی ہے۔اور شارب ردولوی صاحب کی رائے سے اختلاف بھی کیا ہے۔اس کتاب میںکچھ مضامین ایسے بھی ہیں جن کوپڑھنے کے بعد قاری اورناقدکو اختلاف ہوسکتا ہے۔لیکن کسی بھی ادیب یا ناقدکی تحریراس کے اپنے نظریے کے مطابق ہی ہوتی ہے۔اس میں ہمیشہ اتفاق اور اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے مگر اختلاف سے پہلے مناسب دلائل کاپیش کر نا ضروری ہے۔

آپ کالکھاہوا ایک مونوگراف جو مجاہد آزادی مغفور احمد اعجازی کے متعلق ہے۔یہ کتاب بہاراُردواکیڈمی کی گزارش پرلکھی گئی ہے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کی ایک اہم کتاب ہے۔ مغفور احمد اعجازی ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک سچے سپاہی تھے۔ مغفور احمد اعجازی کی ملاقات صفِ اوّل کے تمام مجاہدین آزادی سے رہی ہے ۔ وہ بیک وقت شاعراور ادیب بھی تھے۔اس عظیم شخصیت کامونوگراف لکھ کر پروفیسر فاروق احمد صدیقی نے ایک بہت ہی بڑااور اہم کارنامہ انجام دیاہے۔

آپ کی ایک اہم کتاب ’’مقالات فاروقی‘‘ہے جو کہ ۲۴۸؍صفحات پر مشتمل ۲۴؍ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی اشاعت  ۲۰۱۹؁ء میں ہوئی۔اس کی اشاعت بھی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی نے کی ہے۔اس کتاب میں شامل اکثر مضامین مذہبی نوعیت کے حامل ہیں۔ ان تمام مضامین سے مصنف کے نظریے کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب اپنے شاگرد عزیز(پروفیسر فاروق احمد صدیقی) کے بارے میں لکھتے ہیں  :

’’مقالات فاروقی ‘‘ پروفیسر فاروق احمد صدیقی کے علمی ، ادبی و مذہبی مضامین کا مجموعہ ، ان کی مطبوعہ نثری کتابوں میں مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے۔ ’’افہام و تفہیم ‘‘اور ’’تفہیم و تجزیہ ‘‘ کے بعد یہ مجموعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس جہت سے مختلف ہے کہ اس میں مذہبی مضامین کی بکثرت شمولیت نے عزیزی پروفیسر فاروق احمد صدیقی کے ادبی مزاج و منہاج کو زیادہ واضح کر دیا ہے۔ مذہب فاروق احمد صدیقی کے رگ و پے میں موجزن ہے وہ مذہب کے بغیر ادب کا تصور نہیں کر سکتے ۔ جن مضامین کو تنقیدی کہلانے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، وہ بھی مذہب سے اعراض کی صورت میں فاروق صاحب کے یہاں ممکن نہیں ۔(مقالات فاروقی،مقدمہ،ص۔۱۱)

آپ کی ایک کتاب بعنوان ’’احساس و اِدراک‘‘ہے۔یہ کتاب  ۲۰۲۰میں منظرِ عام پر آئی ۔اس میں تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ تبصرے اور تأثرات بھی شامل ہیں۔ان تمام کی تعداد۲۵؍ ہے۔اس کتاب کے تمام مضامین اپنے اندرایک جہانِ معانی لئے ہوئے ہیں اوراس کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک مستندادیب کے قلم کی جنبش سے وجود میں آئے ہیں۔اس کتاب کے کئی اہم مضامین ایسے ہیں جن کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے۔جن میں ’’بہار میں اُردونعت کا آغاز و اِرتقاء،علامہ سیّدسلیمان اشرف کا اسلوب تحریر،اجتبیٰ رضوی کی رباعیات کا تجزیہ،کلیم عاجزؔایک خوشنوا فقیر، قیصرصدیقی اِک ممتاز و مایہ ناز فن کار غزل،بہار میں جدیداُردوغزل کے نقاد‘‘جیسے بہت ہی اہم مضامین ہیں۔

ان کے علاوہ ایک اہم مضمون ڈاکٹرمحمد خورشید سمیع پر بھی تحریر کیا گیا ہے۔جس کا عنوان ’’جدیداُردوتنقید کا ایک معتبرنام:ڈاکٹرخورشیدسمیع‘‘ڈاکٹرمحمد خورشید سمیع کا تعلق پٹنہ سے تھا۔خورشید سمیع کی تنقیدنگاری کا اصل میدان فکشن تھاوہ فکشن کے اہم ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ان کی علمیت اور تنقیدی اہمیت کے حوالے سے اُردوکے مشاہیر نے بھی دل کھول کر اعتراف کیا ہے جن میں سردار جعفری،ندا فاضلی،قمر رئیس، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی اور انور سدیدجیسے نام اہم ہیں۔ جیساکہ میں نے اوپر میں بیان کیاتھا کہ پروفیسر فاروق صدیقی اپنی رائے کے اظہار میں جہاں اختلاف کی گنجائش ہو وہاں اختلاف بھی کرتے ہیں اور جہاں اتفاق ضروری ہو اس سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔

’’میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹرخورشید سمیع کے ان خیالات سے اختلاف ممکن نہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن نئے افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں کہانی پن کو غیر ضروری قررار دیا وہ اپنے انجام کو پہونچ گئے۔چنانچہ اُردوافسانوں کی نئی نسل کہانیوں میں کہانی پن کی طرف پوری طرح لوٹ آئی ہے۔‘‘(احساس و اِدراک،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۲۰،ص۔۱۱۹)

ابھی آپ کی ایک کتاب جوتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے’’عرفان و آگہی‘‘منظرِ عام پر آچکی ہے۔ اس میں ۱۹۴؍صفحات ہیں اور کُل ۳۸؍تنقیدی مضامین شامل ہیں۔اس کتاب میں زیادہ تر نئے لوگ جو اکیسویں صدی کے ادباء کی فہرست میں شامل ہیں ۔ان کی تخلیقات پر مضامین قلم بند کئے گئے ہیں۔یہ تمام مضامین نئے قلم کاروں کے لیے مشعلِ راہ کاکام انجام دیں گے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

آپ ایک ناقد ومحقق کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعربھی ہیں،آپ کی نعتوں کا مجموعہ ’’ازہارمدینہ‘‘بھی  ۲۰۱۹میں منظرعام پر آچکاہے۔اس کے بارے میں کئی نقادوں نے اس کی اشاعت کے بعد اپنے تأثرات شائع کراکر اس کی اہمیت کو تسلیم کیاہے۔آپ بھی ان کی نعت کے چند اشعار سے قلب و دل کو منور فرمائیں   ۔

گوہرِ نایاب بن جائے ، وہ کنزِ دَہر کا

اِک نظر اُن کی پڑے گر ذرّئہ خاشاک پر

اس شعر میں ان تمام صحابہ کرام کی زندگی کی تصویر کھینچی گئی ہے کہ کیسے جب ان پر نبی مکرم ﷺ کی نظر پڑی اوران کی زندگی میں ایک انقلاب سا آگیا اور وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوئے۔اس کی سب سے بڑی مثال حضرت عمر بن خطاب کی ہے وہ جانی دشمن بن کر نکلے تھے لیکن اس امام الانبیاپرنظرپڑی تو نبی کے سب سے بڑے جاں نثار بن گئے۔

درج ذیل شعربھی شاعر کی نبی سے والہانہ عقیدت و محبت کا مظہر ہے۔نبی پاک کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن جو جس سے محبت کرتا ہے اس کے ساتھ ہوگا۔نبی سے پروفیسر فاروق صدیقی کی محبت کو دیکھ کر اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ( انشاء اللہ ) قیامت کے دن آپ بھی نبی کے غلاموں میں کھڑے ہوں گے۔شعر دیکھئے

بہت مقدس ، بہت مطہر ، بہت منور ہے ذات اُن کی

گر اُن کی مدح و ثنا ہو لکھنی تو چاہئے فکر و فن گلابی

پھر اِذنِ حضوری مل جائے ، فاروقؔ حزیں کو یا مولا

پھر فخر و مسرت سے وہ کہے ، شش بار مدینہ دیکھ لیا

درج بالاایک شعرپروفیسر فاروق احمد صدیقی صاحب جب عمرہ پر گئے تھے اس کے بعد وجود میں آیا آپ نے اب تک پانچ بار مدینہ منور ہ اور مسجد نبوی اور خانہ کعبہ شریف کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔وہ جب حج اور عمرہ کے لئے گئے تھے،اسی منظرکو انہوں نے فخریہ انداز میں اس شعر میں پیش کیا ہے۔

اثر  یہ  آیتِ  لاتر فعوا اصواتکم کا ہے

تصور میں چلا طیبہ نگر ، آہستہ آہستہ

آپ کی ایک کتاب ’’چمنستان نعت‘‘ کے نام سے  ۲۰۲۰ میں منظرعام پر آئی تھی۔ اس کتاب میں ۴۳؍مشاہیرنعت گو شعراء جو بیسویں صدی کے ہیں ان کی نعتوں پر مشتمل ۱۴۴؍صفحے ہیں۔ہر نعت گو شاعر کا شروع میں مختصرتعارف پیش کیا گیا ہے  اور اس کے بعد ان کا کلام بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ’’نعت ریسرچ سینٹر ،خلیل آباد ،اُترپردیش کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔

آپ کی غزلوں کا مجموعہ ’’کرب آگہی ‘‘زیرطبع ہے۔ اس میں آپ کی غزلوں کے کئی رنگ قوس و قزح کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں۔ جس میںحسن تغزل، داخلیت،گہرائی اور گیرائی بھی ہے۔جمالیات اور رومانیت کے عناصر بھی دیکھنے کوملتے ہیں اور غزل کی روایت کی پاسداری بھی ۔ قافیہ اور ردیف کا حسین امتزاج بھی اس میں جمع ہیں اورفکر و تخیل کی بلند پروازی بھی ۔گوکہ اُردوغزل کی خوبصورتی کے تمام رنگ وآہنگ آپ کی غزلوں میں بیک وقت جمع ہیںجن کو دیکھنے کے بعد آپ کی شعری دسترس پریقین پختہ ہوجاتاہے۔مثال کے طور پر شعر ملاحظہ فرمائیں

کیسے ہو فاروقؔ صدیقی ادا حق غزل

طرز غالبؔ ہی میّسر ہے نہ لہجہ میرؔ کا

فاروق صدیقی صاحب ایک استاد کی حیثیت سے اپنی پہلی پہچان رکھتے ہیں اس لیے بحیثیت استاد انہوں نے مشاہیر شعراء کے کلام کا اپنے تلمیذ کو درس دیا اور وہ ان بزرگوں کے کلام کی قدر کرتے ہیں ،جس کی قدر خودمیرؔ اور میرزاؔ کرتے آئے ہیں۔ میرؔنے غالبؔکے بارے میں پیشین گوئی کی تھی کہ کوئی اچھا استاد مل گیا تو بہت بڑا شاعر بنے گا اور غالبؔ نے اپنی غزلوں میں کئی جگہ میرؔکی اہمیت کو تسلیم کیا ہے(کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔبھی تھا)اور اس کے ساتھ ہی ناسخؔکے دعوے کی بھی تصدیق کردی کہ(اپنا بھی عقیدہ ہے بقول ناسخؔ)اس لئے فاروق صدیقی بھی ان کی اہمیت کو اپنے شعر میں بیان کرنے سے پرہیز نہ کر سکے۔

جمالیاتی رنگ کاشعر ملاحظہ فرمائیں

جنّت کا مزہ ملتا ہے آغوش صنم میں

دم بھرتے ہیں عاشق کا شبستان ہزاروں

آپ زندگی میں جہد مسلسل کے مبلغ ہیں اور یہی علامہ اقبالؔکاآفاقی پیغام بھی ہے اور انہیں کو(جہاد زندگانی میںیہ ہیں مردوں کی شمشیریں)کا درجہ حاصل ہے،اچھاشاعرہونے کے لئے ریاضت پیہم اور اشعارمیں تراش خراش ضروری عمل ہے ۔اس چیز کی بھی تلقین آپ نئے قلم کاروں کوکرتے نظرآتے ہیں۔شعر دیکھئے

فاروقؔ کا مذاق سخن ہے عروج پر

پیہم ریاضتوں کا صلہ کہہ لیا کرو

آپ اپنی غزلوں میں اہلِ اقتداراور حکومت وقت کو بھی اپنے قلم کا نشانہ بناتے ہیں ،ان کے مظالم اور بے گناہوں کے ساتھ ہورہی ناانصافی کابھی درد محسوس کرتے ہیں ۔حکومت کے جبر اور تشدد کاپرواہ نہ کرنے کی تلقین اور حق کا دامن تھامنے کا پیغام دیتے ہیں

نشّہ چڑھا ہو جس پہ زرو اقتدار کا

پرواہ ایسے شخص کی میری بلا کرے

شاعرکی نظردنیاوی امور پر بھی ہے کہ کیسے بھائی بھائی کا دشمن بنا پھرتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پرانسان انسان کا بے دریغ خون بہادیتا ہے۔آپ کا جو سب سے عزیزاور قریبی ہوگا وہی آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور آستین کا سانپ ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے عام انسان جو شریف النفس ہیں وہ بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں

دن بہ دن مشکوک ہوتا جا رہا ہے آدمی

ہو گیا دشوار اب یارانہ تیرے شہر میں

شاعر بھی اسی سماج کا فرد ہوتا ہے عام انسانوں کے مقابلے میں فنکار کا ذہن زیادہ حساس ہوتا ہے ،وہ بھی خوشی اور غمی سے اسی طرح متأثرہوتا ہے جیسے کہ عام انسان ۔پروفیسرفاروق ؔصاحب کواپنی اہلیہ سے فراق کا صدمہ بھی ستارہا ہے ۔وہ اب بھی اس وفاشعارخلدآشیانی کو یاد کرتے کرتے غمگین ہوجاتے ہیں ۔اوراپنی محبت کا اظہار کچھ اس انداز میں کرتے ہیں

لائق تعظیم ہے ہر ذرّہ تیرے شہر کا

دفن ہے فاروقؔ کی ریحانہ تیرے شہر میں

جیساکہ میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ آپ کی غزلوں میں ہرقسم کا مضمون موجود ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک سطوربالامیں پیش کی گئی ہے۔قارئین کرام اس مشتے نموانہ ازخروارے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرا دعویٰ غلط نہیں ہے۔اس قسم کے درجنوں اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں جس سے آپ کی شاعری کے ہر پہلوپرمفصل گفتگو ہوسکتی ہے۔ لیکن خوف طوالت دامن گیر ہے۔ اس لئے انہیں چند باتوں پر اکتفاکرتے ہوئے اپنی طالب علمانہ باتوں کو ختم کرتا ہوں۔ابھی پروفیسر موصوف کا قلم برق رفتاری سے چل رہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ جلد ہی کچھ اور اہم کتابیں ہمارے سامنے ہوں گی جن سے ادب کے سرمایہ میں قیمتی اضافہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی والی زندگی سے نوازے۔آمین

Recommended