بنتِ حوا ایس
پچھلے مہینے فیس بک پر سرائے اردو گروپ میں تشہیری کہانی مقابلہ منعقد کروایا گیا تھا۔ میں نے بھی ایک تشہیر کہانی “ننھا جی دار” کے عنوان سے لکھی تھی۔ حیرت انگیز طور پر کہانی مقابلہ جیت کر انعام کی حق دار قرار پائی۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب نے مجھے اپنی کتاب “جی دار” کا تحفہ بھیجا جو کہ بروقت موصول ہوگیا۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ ادب کی دنیا میں موصول ہونے والا یہ پہلا انعام تھا اسی لیے میں کچھ زیادہ ہی خوش ہوئی تھی۔
تاہم امتحانات کی وجہ سےکتاب کو بروقت پڑھ نہیں پائی۔ بعدِ ازاں فارغ ہو کر سب سے پہلے اسی کتاب کو نکال کر پڑھا۔ میں زندگی میں پہلی بار ادبِ اطفال کے نامور ادیب کو پڑھ رہی تھی اور ان کی داستانِ حیات جان کر میں ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی۔ جیسے جیسے میں صفحے پلٹتی گئی ویسے ویسےمیری سوچ کے دھارے بدلتے گئے۔
مجھےجہانِ ادب میں قدم رکھے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں اس ادبی دنیا کے ماحول سے قطعی ناواقف ہوں۔ البتہ اب اس آپ بیتی کو پڑھنے کے بعد کافی حد تک آشنا ہوگئی ہوں۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے بچے کی جو بہت شرمیلا تھا مگر وقت اور حالات کی گردش نے اسے چٹانوں کی طرح مضبوط بنا دیاتھا۔ اپنا حق حاصل کر نے کے لیے اس نے سچ کی راہ کو چنا تو پھر رستے میں بکھرے کانٹے اسے اس راہ سے موڑ نہیں سکے۔ وہ اپنی ساری امیدیں اللہ سے جوڑے ثابت قدمی سے چلتا رہا اور ایک شاندار منزل سے جا ملا۔
یاد رہے کہ آپ بیتی لکھنا قطعی آسان نہیں ہوتا۔ بلاشبہ یہ کام کہانی لکھنے کی نسبت آسان ہوتا ہے لیکن اس میں حقیقی کرداروں کو بغیر ردوبدل کے من وعن لکھنا ایک کٹھن فعل ہے جسے بخاری صاحب نے بخوبی انجام دیا ہے۔ اگر مجھ سے کوئی آپ بیتی لکھنے کو کہے تو شاید میں یہ نہیں کر سکوں گی کیونکہ میں کمزور ہوں یہ کارنامہ کوئی “جی دار” ہی کر سکتا ہے۔
ذوالفقار علی بخاری صاحب نے اپنی اس شاہکار کتاب میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی میں ایسے بے شمار لوگ ہوتے ہیں جو قدم قدم پر ہمیں منہ کے بل گرانا چاہتے ہیں مگریہاں ہمیں ہمت سے کام لے کر خود کو ڈھیر ہونے سے بچانا ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے کئی ادیبوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی تلقین کی ہےاور بے شمارغداروں کو آئینہ دکھایا ہے۔
اس کتاب میں نو آموز لکھاریوں کو بھی مشورے دیے گئے ہیں۔ میں اس ادبی سفر میں چونکہ ابھی نئی قلم کار ہوں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھتی ہوں تو میرے لیے یہ نصیحتیں قیمتی سرمائے کی طرح تھیں جنہیں میں نے اپنے پلو سے باندھ لیا ہے۔
بہر حال جہاں چند ایک واقعات نے لبوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلا دیے وہیں ادبی حلقے کے تلخ حقائق نے کافی افسردہ بھی کیا۔ میں یہ جان کر دنگ رہ گئی کہ ادبی دنیا بے ادب لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ تاہم یہ بات سکون کا باعث تھی کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو محنت سے کتراتے ہیں، جدوجہد سے جی چراتے ہیں یاپھر مسلسل مشقت سےگھبرا تے ہوئےہارمان کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یہ آپ بیتی ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہےجنہیں لگتا ہے کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ آپ یقین کریں کہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کو اپنے خیالات میں واضح تبدیلی کا احساس ہوگا اورآپ اپنے اندرمحنت کا جذبہ از سرِ نو ابھرتا ہوا محسوس کریں گے۔
اگر آپ خود کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو پہلے بہادر بننا سیکھئے اور اس کے لیے آپ کو “جی دار” کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
تو پھر دیر کس بات کی؟
آج ہی ذوالفقار علی بخاری صاحب سے رابطہ کریں اور اپنا آرڈر بک کروائیں۔