Urdu News

مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں روا،معروف شاعر بہادر شاہ ظفرؔکا یوم وفات

اردو کے معروف شاعر بہادر شاہ ظفر

انتخاب: اعجاز زیڈ ایچ

آج 07؍نومبر 1862مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں روا، ذوقؔ و غالبؔ کے شاگرد اور معروف شاعر ” بہادر شاہ ظفرؔ صاحب “ کا یومِ وفات ہے۔

٢٤اکتوبر ١٧٧٥ کو محمد سراج الدین ابو ظفرؔ دہلی میں اکبر شاہ ثانی کے ہاں لال بائی کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ 1845 میں پہلا دیوان مطبع سلطانی سے شائع ہوا ۔ 11؍جنوری 1849 کو شہزادہ مرزا دارا بخت فوت ہوئے ۔ 1850 میں دوسرا دیوان مطبع سلطانی سے شائع ہوا۔ 1856جولائی 10 کو مرزا فخرو فوت ہوئے ۔ 1858مارچ 9 کو بہادر شاہ ظفر کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنا گیا۔ 1858 اکتوبر 17 کو ملکہ زینت محل شہزادہ جواں بخت ار دوسرے افراد کے ساتھ دلی سے رنگون کے لیے روانہ ہوئے۔ 1858 دسمبر 9 کو رنگون پہنچے ۔ ٣؍نومبر ١٨٦٢ کو حلق کی بیماری میں مبتلا ہوئے ۔ ٧؍نومبر ١٨٦٢ بروز جمعہ رنگون میں وفات پائی۔

دیوان اول تک شاہ نصیر کے شاگرد رہے جب وہ حیدرآباد دکن چلے گئے تو پھر کچھ دن میر کاظم حسین بیقرارؔ کے شاگرد رہے – جب وہ جان انفنسٹن کے میر منشی مقرر ہوکر دلی کو چھوڑ گئے کچھ عرصہ عزت اللہ عشق کی بھی شاگردی میں رہے اس کے بعد ذوق دہلوی (جب ذوق غلام رسول شوق کے شاگرد تھے) سے مشورۂ سخن کرتے رہے اور پھر یہ سلسلہ ذوق کی وفات تک 47 برس قائم رہا ۔ ذوقؔ دہلوی کی وفات کے بعد مرزا غالبؔ کے شاگرد ہوگئے۔  1857 کے غدر نے استادی شاگردی کا سلسلہ ختم کرا دیا ۔ مشہور و معروف شاعر بہادر شاہ ظفرؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

خاکساری کے لئے گرچہ بنایا تھا مجھے

کاش خاکِ درِ جانانہ بنایا ہوتا

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں

حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح

روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح

ادھر خیال مرے دل میں زلف کا گزرا

ادھر وہ کھاتا ہوا دل میں پیچ و تاب آیا

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل

نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا

مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا

تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا

شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا

یار تھا گلزار تھا بادِ صبا تھی میں نہ تھا

لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھا

ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا

کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں

خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا

کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے

ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے

کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر

جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے

Recommended