Urdu News

صدقہ فطر: نصف صاع کی جگہ ایک صاع گیہوں لازم کیا جائے

صدقہ فطر

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

اسلام دین فطرت ہے اور اس کا ہر نظام و قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسی فطرتی نظام کے سبب اسلام اپنے ماننے والوں کے حق میں انتہائی مفید اور آسان تر ثابت ہوتا ہے۔ اسلام کا کوئی بھی حکم یا نظام ایسا نہیں ہے جو اپنے ماننے والوں کے حق میں ضرر رساں ہو۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کے ماننے والے اپنی ناسمجھی اور دنیوی ہوس کے چکر میں پڑ کر اسے اپنے لیے مصیبت بنالیتے ہیں یا پھر بندگان خدا کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔

صدقات میں زکات اور فطرہ کا نظام ایک معنی خیز اور اچھوتا نظام ہے جو امیر-غریب ہر دو طبقات کی کامیاب حیات کے لیے لازم ہے۔ زکاة و فطرہ کا نظام اس لیے نافذ نہیں کیا گیا ہے کہ امیر طبقات کو ستایا جائے اور اس کے اموال کو نقصان پہنچایا جائے۔ بلکہ یہ اس لیے نافذ ہوا ہے تاکہ امیر طبقات ایک طرف بخل اور تکبر و غرور جیسے خبیث و شیطانی عادات سے بچ سکیں اور اخلاق حمیدہ جیسے مرغوب اوصاف متصف رہ سکیں تو دوسری طرف ہمارا مسکین و محتاج طبقات معاشی اعتبار سے خوشحال ہوسکیں۔

خیال رہے کہ عرف عام جس چیز کو بخل کہا جاتا ہے اللہ و رسول کے نزدیک دراصل وہ بخل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت میں بخل یہ ہے کہ صدقات و زکات یعنی شرعاً غربا و مساکین کو دینے والے اموال اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے والے اموال کو روک لیا جائے، اور یہ بھی ازبر رہے کہ ایسے بخیل لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر جنت کی خوشبو حرام کردی جاتی ہے۔ یعنی واضح لفظوں میں کہا جائے تو شرعاً طے شدہ اموال (زکات) ادا نہ کرنے پر جنت سے محرومی حاصل ہوتی ہے اور جہنم سے نزدیکی۔ اسی طرح صدقہ فطر کا معاملہ ہے کہ یہ رمضان کے دنوں میں ہر صاحب نصاب پر واجب ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہر فرد کی طرف سے ایک مقررہ مقدار میں متعینہ اناج و غلہ ادا کرے یا پھر اس مقدار کی موجودہ جو قیمت ہو اس کو ادا کرے اور یہ ان مستحقین پہنچائے جن تک پہنچانے کی تلقین اللہ و رسول فرمائی ہے۔ چناں چہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو بطور صدقہ فطر منقی، کشمش، کجھور، چھوہارہ، پنیر، جو وغیرہ کا ذکر بالخصوص ملتا ہے۔ جب کہ گیہوں کا ذکر صراحت کے ساتھ کہیں نہیں ملتا ہے۔ البتہ! حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے معمولات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ صحابہ کرام رضہ اللہ عنہم کجھور و کشمش، منقی و پنیر اور جو  کی طرح گیہوں سے بھی ایک صاع بطور صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔

 لیکن ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما نے اپنی تحقیق و صواب دید پر ایک صاع صدقہ فطر کو نصف صاع گیہوں میں مبدل کردیا اور اس کی علت یہ بتائی گئی کہ چوں کہ کجھور، کشمش وغیرہ کے بالمقابل گیہوں کی درآمدگی کافی مشکل ہے۔ نیز یہ کہ گیہوں، کجھور و کشمش کے مقابلے کافی مہنگا بھی ہے اور پھر یہ کہ نصف صاع گیہوں، ایک صاع کھجور و کشمش وغیرہ کے برابر ہے اس لیے عوام الناس کو گیہوں نکالنے کی صورت میں شاق نہ گزرے اور انھیں معاشی دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اس لیے گیہوں صدقہ فطر نکالنے کی صورت میں نصف صاع مقرر کردیا گیا جسے اس وقت کے اصحاب نے قبول کرلیا کہ یہ ایک معقول علت و سبب ہے۔

لیکن آج تک نصف صاع گیہوں بر قرار رکھنا ہمارے خیال سے کچھ مناسب نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ہمارا کہنا ہے کہ علما و محققین اس معاملے میں کچھ پہل کریں اور فی زماننا نصف صاع گیہوں کی ادائیگی پر غور و خوض کریں۔ کیوں کہ حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما کے زمانے میں منقی، کشمش، کھجور، جو وغیرہ کی بہ نسبت گیہوں کافی مہنگا تھا اس لیے اس وقت نصف صاع گیہوں کو مذکورہ بالا اشیا (کجھور و کشمش وغیرہ) ایک صاع کے برابر مانا گیا ہے اور اسی مقدار کے مطابق صدقہ فطر کا حکم ہوا۔ تو کیا موجودہ زمانے میں گیہوں کی مقدار نصف صاع کی جگہ ایک صاع نہیں ہوسکتی؟ کیوں کہ اس وقت گیہوں، مذکورہ بالا اشیا کے مقابلے کافی سستا ہے۔

جس حدیث پاک سے گیہوں کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ ہے: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں از قسم طعام، کجھور، جو، پنیر بطور صدقہ فطر ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ لیکن حضرت معاویہ اور حضرت سمرا رضی اللہ عنہما کا زمانہ آیا تو انھوں نے کہا کہ ایک مد (نصف صاع) گیہوں، دو مد (ایک صاع) کجھور وغیرہ کے برابر ہے۔

اس روایت سے واضح ہے کہ حضرات معاویہ اور سمرا رضی اللہ عنہما نے اپنی تحقیق و صواب دید پر ایک مد (نصف صاع) گیہوں کو دو مد (ایک صاع) کے برابر قرار دیا اور اسی وقت سے ایک صاع کجھور و کشمش وغیرہ کی جگہ نصف صاع گیہوں رائج ہوا کہ یہ اس وقت کا تقاضا اور امت مسلمہ کے حق میں بہتر تھا اور صدقہ فطر کا جو مقصد ہے “محتاجوں کی حاجتیں پوری کرنا” اس پر بھی ضرب نہیں پڑ رہی تھی۔

لیکن آج بالکل اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ یعنی اس روایت کو موجودہ عہد کے حالات و معاملات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج گیہوں کا معاملہ قیمتاً یکسر الٹ گیا ہے اور جس مقصد کے تحت حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما نے گیہوں کی مقدار نصف صاع مقرر کی تھی وہ فوت ہوچکا ہے اور قاعدہ کلیہ ہے کہ جب شرط و علت ختم ہوجائے تو مشروط و حکم بھی ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ احادیث کریمہ میں بطور صدقہ فطر جن اشیا کا ذکر ملتا ہے اس سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ان اشیا میں سے نصف صاع بلکہ اس سے بھی کم، ایک صاع گیہوں یا اس سے زیادہ مقدار کے برابر ہوجاتا ہے۔ مزید آسان لفظوں میں کہا جائے تو نصف صاع کھجور، منقی، کشمش، پنیر، جو وغیرہ آج ایک صاع گیہوں کے برابر ہوتا ہے۔ لہذا بغور دیکھا جائے تو نصف صاع گیہوں کی شکل میں صدقہ فطر ادا کرنے سے اس کا اصل مقصد فوت ہوجانے کے ساتھ محتاجین و مساکین کی سخت حق تلفی بھی ہورہی ہے، اور صدقہ فطر کے مزاج میں کبھی یہ نہیں ہے کہ مستحقین کو نقصان پہنچائے کہ صدقہ فطر محتاجین و مساکین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی وضع کیا گیا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس زمانے میں حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما ہوتے تو اس کے کم دام ہونے کے سبب نصف صاع گیہوں کی جگہ ایک صاع لازمی طور پر کردیتے۔

اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ صدقہ فطر ہرسر پرست پر واجب نہیں کہ اسے ایک صاع گیہوں یا اس کی قیمت نکالنے میں دقت ہو۔ بلکہ یہ محض صاحب نصاب سرپرست پر واجب ہے۔ بایں سبب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علما و فضلا اور متدین محققین اس معاملے میں شرعی و فقہی نقطہ نظر سے غور و خوض کریں اور نصف صاع گیہوں کی صورت میں صدقہ فطر کا جو بنیادی اور روحانی مقصد فوت ہورہا ہے اسے ایک صاع بحال کرنے کی کوشش کریں کہ کار ثواب بھی ہوگا اور ایک بڑا مسئلہ ہوجائےگا۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہم سبھی جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کو نفع پہنچانے اور اسے اجر و ثواب سے قریب کرنے کے لیے حسن نیت کے ساتھ اگر کوئی تحقیق و تفتیش کی جائے تو درست ہونے پر ثواب ہی ثواب ہے اور اگر خدا نخواستہ چوک بھی ہوجائے تو حسن نیت کا ثواب ضرور حاصل ہوگا۔ لہذا ہمیں امید قوی ہے کہ ہمارے متدین علما و فضلا اور محققین ضرور اس پر توجہ دیں گے۔ ان شاءاللہ

Recommended