Urdu News

رسومات محرم اصلاحات: محبتِ اہل بیت اور غیر شرعی امور کی روشنی میں

رسومات محرم اصلاحات

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

جن رسومات کے سبب اہل بیت سے محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے تو اُنھیں اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ! اُن میں غیرشرعی امور کا عمل دخل نہ ہو۔

 محرم الحرام اسلامی سال اور قمری تاریخ کا آغازِ باب ہے۔ یہ مہینہ انتہائی محترم ومکرم ہے۔ کلام پاک میں جن چارمہینوں کی حرمت بیان کی گئی ہے اُن میں سے ایک محرم بھی ہے۔ محرم الحرام کو مختلف انبیائےکرام علیہم السلام سےایک خاص نسبت حاصل ہے۔اُن کے شب وروز سے متعلق بہت سے واقعات ماہِ محرم میں رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میںجہاں اگلی اُمتوں کےلیے ایک پیغام مضمر تھا وہیں ہمارے لیے بھی ایک پیغام مضمر ہے جس کے مطابق ہمیں اپنی زندگی سجانےاورسنوارنے کی ضرورت ہے۔

ماہِ محرم میں انبیائے کرام کی طرف منسوب چیزوںمیں ایک اہم چیز کا ذکر ہم یہاں اصلاحی طور لازم سمجھتے ہیں۔جب ہمارے پیارے نبی سرورکائنات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئےتودیکھاکہ یہود ی لوگ دسویں محرم کو رُوزہ کھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سےدریافت کیا تواُنھوںنےبتایا: چوںکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کودَسویںمحرم کے دن فرعون سے نجات دی اور فرعونیوں کو دَریائے نیل میں غرق کردیاتو شکرانےکے طورپر حضرت موسیٰ نےروزہ رکھا تھا، اِس لیےہم لوگ بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں اور اُن کی یادگارکے طورپر دَسویں محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تم لوگوں کی بہ نسبت(حضرت)موسیٰ سے ہمارا رشتہ زیادہ مضبوط ہے، چناںچہ دسویں محرم کا روزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکھا اور اَپنے صحابہ کو بھی اِس کا حکم فرمایا۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

پھر صحابۂ کرام کے یہ کہنےپرکہ دسویں محرم کا ایک روزہ تو یہود بھی رکھتے ہیں؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آئندہ سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیںگے۔ لیکن اِس سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔   (صحیح مسلم، حدیث:۱۱۳۴)

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس عمل واِرشادسے روز روشن کی طرح واضح ہوتاہے کہ محض اغیارسے مشابہت کے سبب کسی اچھے عمل کو ترک کردینا ہرگز مناسب نہیں۔ بلکہ اس کے برخلاف اگر کسی نیک عمل میں مشابہت ہو/مشابہت کا کچھ شائبہ ہوتو اُس کے ساتھ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرلیناچاہیے کہ جس سے مشابہت ِاغیارکا مسئلہ حل ہوجائے، جیساکہ محسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود دَسویں محرم کا روزہ رکھااوراپنےصحابہ کو بھی اِس کا حکم فرمایا۔ پھرجب صحابۂ کرام نے دسویں محرم کے روزہ کویہودکے عمل سے مشابہت والی بات کہی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نویں محرم کا مزید ایک روزہ رَکھنے کا ارادہ ظاہرفرماتے ہوئے نہ صرف یہودسے مشابہت کو رَفع فرمادیا بلکہ اپنے صحابہ کے خدشات کو بھی دورفرمادیا۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

ہمارے خیال سے سیرت نبوی کا یہ پہلو نہ صرف دسویں محرم کےروزے تک محدود رَہناچاہیے بلکہ اِسے دینی اور دنیوی ہرسطح پر نافذالعمل ہونا چاہیے ۔ بالخصوص ہمارے اُن برادران کو اِس پر خاص توجہ دینا چاہیے جومشابہت اغیار کی لاٹھی سے بہترین سے بہترین اعمال کی کمر توڑدیتے ہیں اور اُن اعمال کی رحمت وبرکت سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی قوم کو بھی محروم رکھتے ہیں۔

مزیدبرآں محرم کے مہینے میں بہت سارے اچھےاعمال بھی محض اِس لیے رد کردیے جاتے ہیں/اُنھیں خلاف شرع بتائے جاتے ہیںکہ وہ اعمال غیرسنی افراد اَنجام دیتے ہیں۔یہاں تک کہ اہل بیت سےشدید محبت کا اظہار کرنے والےسنی افراد کو بھی غیرسنی قرار دے دیا جاتاہے۔ حالاںکہ ہمیں یہ علم اَزبر اور پختہ رَہنا چاہیےکہ اہل بیت سے محبت، ایمان کا لازمی حصہ ہے۔لہٰذاہم اگرجانے انجانے میں بھی ایسا نظریہ رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے نظریات پر اَز سرنو غورکرنے اوراِپنے نظریات میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

اِسی طرح یادِ حسین اور ذِکر حسین کے طریقۂ کارکو یکسر نظر انداز کردینے کی بجائے اگر واقعی اُس میں کچھ خامی اور نقص ہے تو اُسے دور کرنے پر غور ہونا چاہیے نہ یہ کہ ناپسندیدہ طریقۂ کار کےسبب یادِحسین اور ذکر حسین پر ہی سوالیہ نشان لگایا جانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں تعزیہ داری کی ایک قدیم روایت ہے جو برسوں سے چلی آرہی ہے، اور باوجودیکہ شرع میں باضابطہ اس تعلق سے کوئی حکم نہیں ہے۔لیکن چوںکہ اس کے ذریعے احترام محرم کے ساتھ اہل بیت سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے،اور اِس بات سے کوئی انکار کی جرأت نہیں رکھتاکہ اِحترام محرم اور اہل بیت سے محبت کے اظہارکا شرعاًاور تاکیدی حکم ہے، اِس لیے مطلق تعزیہ داری کے خاتمے کی جگہ اُس کے اندرموجود خامیوں کو دُور کرنے کی بات ہونی چاہیے۔یعنی اُسے لہو ولعب اور غیر شرعی امور سے صاف ستھرا کیا جائے اور اِس غنیمت بھرے موقع پر دفاعی ہنرکاری کی پریکٹس ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ امام حسین اور احترام محرم کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اِس موقع پرمسلمانوں کی طرف سے بندگان خدا کے لیے کھانے-پینے اور مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے،تو اِس پر بھی کچھ لوگ ناک- بھوں چڑھاتے ہیں، یہ بھی اچھی بات نہیں ہے۔ کیوںکہ اس عمل کے سبب دوہرا ثواب ملتاہے:ایک بندگانِ خدا کو کھلانے-پلانےکاثواب،اور دوسراشہیدکربلاسےمحبت وعقیدت کے اظہارکا ثواب، اور یہ دونوں اعمال نہ توشرعاً ممنوع ہیں اور نہ خلاف شرع۔البتہ!اس کا لازمی پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہ تمام اعمال لوجہ اللہ ہوں، ہرطرح کے نام ونمود اَور دکھاوے سے پاک وصاف ہوں اور کھانے-پینے کی اشیا کی بےحرمتی اور ضیاع نہ ہو۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

خلاصۂ کلام یہ کہ رسومات ِمحرم کے سلسلے میں جن علماوفقہا نے بدعات وخرافات کا قول کیا ہے تو اِس کی بنیاد لہو ولعب اور غیر شرعی امور پرہے، اور خیال رہےکہ لہوولعب اور غیرشرعی امورکےسبب محض رسومات ہی نہیںبلکہ واجبات وفرائض تک بدعات وخرافات میں شامل ہوجاتے ہیں۔ چناںچہ رسومات ِمحرم کا تعلق اگر لہوولعب سےہےاور اُس میںغیرشرعی امور کا عمل دخل ہے، تو بلاشبہ اُنھیں درست نہیں کہا جاسکتا اور اگر اُن کا تعلق لہو ولعب اور غیرشرعی امورسے نہیں ہے، تو بلاشبہ وہ درست ہیں۔ جس طرح واجبات وفرائض میں لہوولعب اورغیرشرعی حرکات کےدرآنے سے اُنھیں ترک نہیں کیاجاسکتابلکہ اُن میں اصلاحات کی جائےگی کیوںکہ اُن کی ادائیگی کے سبب تعلق باللہ وتعلق بالرسول مضبوط ہوتا ہےاور احکام واجبہ کی تعمیل ہوتی ہے۔بعینہ رسوماتِ محرم میں لہو ولعب اور غیرشرعی حرکات کے درآنے سےاُنھیں ترک نہیں کیا جاناچاہیے بلکہ اُن کی اصلاحات کی جانی چاہیے کہ ان کے سبب اہل بیت سے محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

Recommended