Urdu News

افغان طالبان جو کبھی پاکستان کا اثاثہ سمجھے جاتے تھے اب اسے کے  دشمن بن گئے:رپورٹ

طالبان جو کہ اب افغانستان میں حکمراں ہیں

اسلام آباد ؍ کابل، 29؍ دسمبر

پاکستان کبھی سمجھتا تھا کہ افغان طالبان ایک “اسٹرٹیجک اثاثہ” ہیں لیکن آج وہ دشمن میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تصادم کا آغاز اس وقت ہوا جب “طالبان نے 15 اگست 2021 کو کابل پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان میں ڈیپ سٹیٹ، ایک بار یہ سمجھتی تھی کہ طالبان افغانستان میں “اسٹریٹجک گہرائی” بنانے میں ان کی مدد کریں گے۔ پھر بھی وہی افغان طالبان، ایک زمانے میں “اسٹرٹیجک اثاثہ” کے طور پر سراہا جانے والا آج دشمن میں تبدیل ہو گیا ہے۔

  خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ طالبان نے اپنے قبضے کے ذریعے غلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں۔ بہت سے دوسرے پاکستانیوں نے بھی جشن منایا۔

خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، آج وہ اپنے بیانات پر افسوس کر رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: “اپنی فتح کے چند دنوں کے اندر، کابل کے نئے حکمرانوں نے پاکستانی طالبان (جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے نام سے جانا جاتا ہے) کے ارکان کو رہا کر دیا، جو افغان جیلوں میں قید تھے۔ جنہوں نے اسلام آباد حکومت کے خلاف برسوں جنگ لڑی ہے۔

 طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، پاکستان افغانستان سرحد جو ایک صدی قبل انگریزوں نے کھینچی تھی۔سقوط کابل کے بعد پاکستان افغان طالبان کی حمایت جاری رکھتے ہوئے امریکہ کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔

ایک مبہم پالیسی نے کسی کو خوش نہیں رکھا۔ پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، جو اس سے پہلے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل تھے، 2021 کے وسط میں شمالی افغانستان میں پنجشیر جنگجوؤں کے خلاف طالبان کی کوششوں کی حمایت کے لیے کابل گئے۔

حمید نے 2022 میں دوبارہ کابل کا دورہ کیا تاکہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ تاہم وہ اس مشن میں ناکام رہے۔ اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی پاکستان واپس آگئی۔ اس کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، “سرحد پر موجودہ صورتحال جنرل عاصم منیر کے پاکستانی فوج کے نئے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پیدا ہوئی، اگلے دن، پاکستان میں ایک خودکش بم دھماکے میں چار شہری مارے گئے۔

 ٹی ٹی پی نے  اس حملے ذمہ داری قبول کی ۔جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں سینئر جنرلز کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں ٹی ٹی پی کے خلاف  کے پی کے  اور شمالی بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حملے کے بعد فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، دسمبر 2022 کے اوائل میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر اور چمن بارڈر پر افغان بارڈر فورسز کے حملے کے نتیجے میں چھ پاکستانی شہری ہلاک ہوئے۔

بنو میں انسداد دہشت گردی کے ایک حالیہ آپریشن کے دوران، ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنایا اور یرغمالیوں کے بدلے میں ان سے افغانستان جانے کے لیے کہا۔افغان طالبان اب ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کو للکار رہے ہیں۔

Recommended