پاکستان میں اسلام کے نام پر حکومت کی حمایت یافتہ بے لگام مغرب مخالف مظاہرے یورپ میں اس کے طلباء اور تاجروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ماضی قریب میں سمجھے جانے والے اسلامو فوبیا کے خلاف اکثر سڑکوں پر مظاہرے ہوئے ہیں جن پر زبردست بحث ہوئی اور قراردادیں منظور کی گئیں۔ فرانس کے خلاف ایسے ہی ایک احتجاج میں حکومت سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا کہا گیا۔
فرانس اور سویڈن ان یورپی ممالک میں شامل ہیں جو چارلی ہیبڈو کے کارٹونز پر پاکستانی اسلام پسندوں کی آماجگاہ ہیں۔ سویڈن نے اسلام آباد میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے جس کا مطلب ویزوں میں تاخیر ہے۔ لیکن بہتر تعلیم اور روزگار کے امکانات تلاش کرنے والے پاکستانیوں کے لیے یورپ ایک پسندیدہ مقام ہے۔
کئی یورپی ممالک میں 20,000 سے زیادہ پاکستانی نژاد آباد کار ہیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف اور دیگر سہولیات حاصل کرنے والے طلبہ کی ایک غیر متعینہ تعداد ہے۔
پاکستانی طلبا کے لیے کچھ سرکاری وظائف میں ویزبی پروگرام اسکالرشپ، سویڈش انسٹی ٹیوٹ اسٹڈی اسکالرشپ، اور دیگر شامل ہیں۔ سویڈن کی یونیورسٹیاں دیگر اسکالرشپ پیش کرتی ہیں اور ان میں یونیورسٹی آف بوراس ٹیوشن فیس ویورز، ہالمسٹڈ یونیورسٹی اسکالرشپس، اور دیگر شامل ہیں۔
مغربی حکومتیں اس بات کا نوٹس لیتی ہیں کہ پاکستان میں حکام اس طرح کے مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں تاکہ اسلام پسند گروپوں اور جماعتوں کی طرف سے فروغ پانے والے مقامی جذبات کو حل کیا جا سکے، جزوی طور پر سیاسی فائدے کے لیے اور باقی، سنگین ملکی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیےایسا کیا جاتا ہے۔اس سے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس سال فروری سے اسلام آباد میں سویڈن کے سفارت خانے نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور کوئی ویزا درخواست موصول نہیں ہوئی۔ سفارتخانے کی بندش کی وجہ سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے بعد پاکستان میں شدید احتجاج اور ردعمل ہے۔ان مظاہروں پر اندرون ملک شدید ردعمل کے بعد سویڈن کی حکومت نے اپنے سفارتی عملے اور زائرین کی حفاظت کے لیے سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عارف محمود کسانہ کے مطابق، سفارت خانہ دوبارہ کب کھلے گا اس بارے میں ابھی کوئی بات نہیں ہے۔ روزنامہ اوصاف میں لکھتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سویڈن کی کچھ یونیورسٹیوں نے طلبا کو مطلع کیا ہے کہ سفارت خانہ 2023 میں پورے سال کے لیے بند رہے گا۔ اس اطلاع سے طلباء میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کے علاوہ تاجر برادری اور وہ لوگ جو چاہتے ہیں اپنے پیاروں سے ملنے سویڈن جانے والے بھی پریشان ہیں۔
کسانہ کا کہنا ہے کہ کچھ طلباء نے اپنی سویڈش ویزا درخواستوں کے ساتھ ایران اور دبئی میں سویڈن کے سفارت خانوں سے رابطہ کیا کیونکہ انہیں سویڈن کی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل چکا ہے اور انہوں نے فیس بھی ادا کر دی ہے۔ اس پر دونوں ممالک میں سویڈن کے سفارت خانوں نے درخواستیں قبول کرنے سے انکار کردیا اور جواب میں کہا کہ صرف متعلقہ ممالک کے رہائشی ہی درخواست دے سکتے ہیں۔
سویڈن کی یونیورسٹیوں نے پاکستانی طلبا سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں سویڈن کا سفارت خانہ کھلنے تک فیس جمع نہ کریں۔ کاسانہ کا کہنا ہے کہ “یہ صورت حال پاکستانی طلبا کے لیے بہت پریشان کن ہے اور اگر سویڈن کا سفارت خانہ جلد نہ کھولا گیا تو ان کے داخلے ضائع ہو جائیں گے۔ سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کا واقعہ اسٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے سامنے پیش آیا، جس کے ردعمل میں ترکی میں مظاہرے ہوئے اور سویڈن کے سفارت خانے کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا، تاہم ترکی میں سویڈن کا سفارت خانہ ایک دن کے لیے بند کر دیا گیا۔
اسی طرح دیگر ممالک میں جہاں احتجاج ہوا وہاں سویڈن کے سفارت خانے کھلے ہیں، پاکستان میں صرف سویڈن کا سفارت خانہ بند ہے۔ ان کا کہنا ے کہ ‘ یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی ہے، سفارتخانے کی بندش سے پاکستان کے سویڈن کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔
سویڈن میں رہنے والے ہزاروں پاکستانیوں کے لیے بھی صورتحال پریشان کن ہے اور وہ اپنے پیاروں کو سویڈن مدعو نہیں کرسکتا۔کسانہ نے میڈیا کے ذریعے مشورہ دیا، ’’مظاہرے پاکستان میں ضرور ہونے چاہئیں لیکن ان میں ایسے مطالبات اور زبان استعمال نہ کریں کہ بعد میں پاکستانیوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔